سیاسی جماعتوں میں دھڑے بندیاں

پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں دھڑا بنانے کی روایت1949 میں ہی قائم ہوگئی تھی

مسلم لیگ کے15سے زائد دھڑے بنے ، ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی کے تین تین دھڑے قائم ہیں

الیکشن کمیشن میں 300سے زائد جماعتیں رجسٹرڈ ہیں ، جن کے نام سے بھی عوام واقف نہیں

جوں جوں الیکشن 2018قریب آرہے ہیں ، سیاسی جماعتوں میں نئے فارورڈ بلاکس، الائنسز ،دھڑے بندی اور توڑ پھوڑ کی خبروں عروج پر پہنچ گئیں ہیں ۔ سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن اگلے سال فروری میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگی،مسلم لیگ ق سے مسلم لیگ ن کا حصہ بننے والے سیاست دانوں کی اکثریت نے اڑان بھرنے کیلئے پرتول لیے ہیں ، مسلم لیگ ق کے روح رواں چوہدری پرویز الہی 70شخصیات سے رابطوں کا دعویٰ کرچکے ہیں مگر ذراءع کا یہ کہنا ہے کہ 25کے قریب اہم شخصیات سے چوہدری پرویز الہی مسلسل رابطے میں ہیں جن کی اکثریت جنوبی پنجاب سے ہے، اس سے دوگنا تعداد کے رابطے تحریک انصاف سے ہیں ، انتخابات سے قبل یہ رابطے ہونا کوئی نئی بات نہیں ہے، ماہ فروری تک سیاسی منظرنامہ سامنے آجائے گا اور اقتدار کی خواہش رکھنے والے پرندے ہوا کے رخ کے ساتھ پر ہلانا شروع کردیں گے ۔ اگلے سال ہی اس توڑ پھوڑ کے شروع ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ماہ فرور ی میں اپنی نشستیں چھوڑنے والوں کو ضمنی انتخابات کا ڈر نہیں ہوگا، آئین کے مطابق ان کی نشستوں پر الیکشن آئندہ جنرل انتخابات میں ہی ممکن ہوپائیں گے ۔ سابق صدر اور گزشتہ دو سال سے تیسری بڑی قوت بنانے کی تیاریوں میں مصروف پرویز مشرف بھی وطن واپسی کیلئے تیاری میں ہیں ۔ پیپلزپارٹی کی مخالف جماعتیں سندھ میں متحد ہورہی ہیں ، متحدہ قومی موومنٹ اور پاک سرزمین پارٹی کے درمیان نکاح کی تیاریاں بھی جاری ہیں ، دونوں خاندانوں کے درمیان معمول کے روایتی جھگڑے بالاخر دم توڑ جائیں گے اور ایک ہی چھتری کے نیچے سبھی جمع ہوجائیں گے ۔ دیکھنا یہ ہوگا کہ پرویز مشرف کیا اس قابل ہوسکیں گے کہ سندھ کی تمام جماعتوں کو ایک جھنڈے تلے اکٹھا کرسکیں ;238; اگر ایسا ممکن ہوگیا تو پیپلزپارٹی کیلئے آئندہ سندھ کے سیاسی محاذ میں بھی کامیابی مشکل ہوجائے گی ۔ بات کریں مذہبی جماعتوں کی تو جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور مولانا فضل الرحمن نے متحدہ مجلس عمل کے مردہ جسم میں دوبارہ جان ڈالنے کی کوشش کی ہے ۔ اگر واقعی یہ دونوں صاحبان اپنی کوشش میں مخلص رہے اور آئندہ انتخابات ایک نشان کے ساتھ لڑنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں تو خیبرپختونخواہ میں پاکستان تحریک انصاف کو کافی نقصان پہنچائیں گے ، یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ حکومت بناپائیں گے مگر حکومت سازی میں ماضی کی طرح ان کا کردار اہم ہوگا ۔ یہ وہ صورتحال ہے جو ہر انتخابات سے قبل دیکھنے کو ملتی ہے، کیا اس کی وجہ سیاسی جماعتوں کے رویے ہیں ;238; مایوس کن انداز سیاست ہے;238; اس بات کا تجزیہ کرنے کیلئے ہم قارئین کیلئے ماضی میں سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ اور دھڑے بندیوں کا احوال پیش کرتے ہیں ۔

مسلم لیگ میں دھڑے بندیاں

پاکستان بنانے والی جماعت ’’ مسلم لیگ‘‘ قائداعظم محمد علی جناح کی حیات تک متحد رہی ، تاہم اس کے بعدسے لے کر اب تک مسلم لیگ کے15سے زائد ٹکڑے ہوچکے ہیں ، جناح کی وفات کے بعد اس کا پہلا دھڑا حسین شہید سہروردی نے بنایا، انہوں نے 1949 میں مسلم لیگ سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی پارٹی کی بنیاد رکھی، جبکہ اسی سال ممدوٹ بھی مسلم لیگ سے علیحدہ ہوئے اور جناح مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی، جبکہ1950 میں دونوں اکٹھے ہوئے اور جناح عوامی مسلم لیگ بن گئی ، اگلے ہی سال الیکشن میں انہوں نے32سیٹیں حاصل کیں ، تاہم ایک ہی سال بعد ممدوٹ سمیت آدھے سے زیادہ اراکین مسلم لیگ میں واپس آگئے، یوں جناح عوامی مسلم لیگ کا اختتام ہوا، حسین سہروردی نے بعدازاں اسے عوامی لیگ کا نام دیا جو بنگال کی پارٹی بن کر رہ گئی ۔ 1952 میں مسلم لیگ سندھ کے صدر ایوب کھوڑو اور سندھ کے لیڈرز کے بیچ اختلافات پیدا ہوئے تو انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا ۔ کھوڑو نے مسلم لیگ چھوڑ کر سندھ مسلم لیگ قائم کی ،جس نے 1953 میں سندھ کے انتخابات میں 7سیٹیں جیتیں ، تاہم یہ لیگ دوہی سال بعد ختم ہوگئی ۔ 1955 میں مسلم لیگ کے رہنما اسکندر مرزا نے ری پبلکن پارٹی قائم کردی، مسلم لیگ کے ممبران اور پارلیمنٹ لیڈر بھی اس جماعت میں شریک ہونے لگے ۔ 1958 میں اس پارٹی کا بھی خاتمہ ہو گیا ۔ 1958 میں مرزا اور ایوب خان نے مل کر ملک میں پہلا مارشل لا لگایا، تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی ۔ اس وقت تک مسلم لیگ ویسے بھی بہت سکڑ چکی تھی ۔ ایوب خان ن ایک نئی مسلم لیگ کی بنیاد رکھی ، جس میں تمام دھڑوں کو اکٹھا کیا گیا ، پارٹی کا نیا نام پاکستان مسلم لیگ رکھا گیا، بعد میں اس پارٹی کے نام کیساتھ کنونشن کا اضافہ کیا گیا، اور باقی دھڑوں کو اپنی سیاسی جماعت کی حیثیت کیساتھ اس کا حصہ بنایا گیا، یوں یہ اتحاد پاکستان مسلم لیگ کنونشن بنا، ایوب خان اس پارٹی کے سربراہ اور ذوالفقار علی بھٹو اس پارٹی کے سیکرٹری جنرل بنے ۔ ایوب خان سے مخالفت کی وجہ سے سردار عبد القیوم اور ممتاز دولتانہ نے مل کر ایک اور دھڑا قائم کیا جسے پی ایم ایل کونسل کا نام دیا گیا، مادرملت محترمہ فاطمہ جناح نے اسی پارٹی کی ٹکٹ پر صدارتی الیکشن لڑا تھا ۔ اسی دوران سردار عبدالقیوم نے پارٹی چھوڑ کر علیحدہ جماعت کی بنیاد رکھ دی جسے قیوم لیگ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، جسے بعدازاں پیپلزپارٹی میں ضم کردیا گیا ۔ 1973 میں ایک سندھی جاگیردار پیر پگاڑا نے پی ایم ایل کنوینش اور پی ایم ایل کونسل کو ملا کر پی ایم ایل فنکشنل پارٹی کی بنیاد رکھی ۔ 1985 میں ضیاء الحق نے جنرل الیکشنز کا انعقاد عمل میں لایا، پی ایم ایل فنکشنل کے ایک لیڈر محمد خان جو نیجو نے پی ایم ایل فنکشنل کو ایک متحدہ پاکستان مسلم لیگ میں بدل دیا ۔ یہ اکثریتی پارٹی بن گئی اور جونیجو کو ملک کا وزیر اعظم منتخب کر لیا گیا، نوازشریف اسی جماعت کا حصہ بنے ۔ یہ پارٹی 1988 میں آئی جے آئی اتحاد کا حصہ بنی ، آئی جے آئی اتحاد نے 1990 کے انتخابات میں فتح حاصل کی،نواز شریف وزیر اعظم بن گئے، پارٹی کا ایک گروپ جونیجو کو وزیر اعظم بنانا چاہتا تھا ۔ یہ دھڑا 1993 میں مسلم لیگ سے علیحدہ ہو گیا ۔ بچی کھچی پارٹی کو پاکستان مسلم لیگ ن کا نام دیا گیا ۔ 1999 میں پرویز مشرف نے نواز شریف کو حکومت سے باہر کر کے جلا وطن کر دیا تو پی ایم ایل این کے چار رہنما چوہدری شجاعت، چوہدری پرویز الٰہی، مشاہد حسین اور شیخ رشید نے مشرف کے ساتھ جانے کا فیصلہ کیا اور مسلم لیگ قائد کے نام سے ایک پارٹی قائم ہوئی ۔ اس سے قبل مسلم لیگ جونیجو اور مسلم لیگ جناح بھی قائم ہوئیں جو بعدازاں ختم ہوگئیں ۔ 2002 میں ضیا الحق کے بیٹے اعجاز الحق نے مسلم لیگ ضیا کے نام سے ایک چھوٹی سی پارٹی بنائی ۔ یہ دھڑا مسلم لیگ کا سب سے چھوٹا دھڑا رہا ہے ۔ 2008 میں شیخ رشید احمد نے عوامی مسلم لیگ جبکہ اسی سال آل پاکستان مسلم لیگ کی بنیادپرویز مشرف نے رکھی، یہ تینوں دھڑے ایک فرد کے گرد گھومتے ہیں ۔ اتنی زیادہ تقسیم کے بعد قائداعظم کی مسلم لیگ تلاش کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے تاہم اس وقت مسلم لیگ کا سب سے بڑا دھڑا ’’پاکستان مسلم لیگ ن ‘‘ ہی ہے ۔

پیپلزپارٹی میں دھڑے بندیاں

ذوالفقار علی بھٹو نے 30نومبر1960کو پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی ۔ پیپلزپارٹی میں پہلی دڑار اس وقت آئی جب 1980 میں شاہنواز اور مرتضیٰ بھٹو نے شہری گوریلا تنظیم الذوالفقار تشکیل دی، یہ ایک سیاسی جماعت نہ تھی مگر اس کی کوکھ سے بعدازاں سیاسی جماعت نے جنم لیا ۔ مرتضی بھٹو کی بیوہ نے پاکستان پیپلزپارٹی (شہید بھٹو)بنائی ۔ تاہم یہ ایک شہر کی جماعت بن کر رہ گئی ۔ 1999 میں آفتاب احمد شیرپاوَ اور پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظر بھٹو کے درمیان اختلافات کے بعد انہوں نے اپنا راستہ پی پی پی سے جدا کرکے پی پی پی شیرپاوَ کے نام سے سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی ۔ تاہم 2012 میں پارٹی کے نام اور منشور میں تبدیلی کرکے اسے قومی وطن پارٹی کا نام دے دیا گیا ۔ اسی طرح دیگر جماعتوں کے احوال پر نگاہ دوڑائیں تو جمیعت علمائے اسلام کے دو گروپ ’’ف ‘‘اور’’ س‘‘ بن چکے ہیں ، ایم کیو ایم کی کوکھ سے مہاجر قومی موومنٹ اور پاک سرزمین پارٹی جنم لے چکی ہے ۔

یہ سلسلہ آخر کب تک

سیاسی جماعتوں میں دھڑے بندیا ں ’’سیاسی فرقہ واریت ‘‘ ہیں جو جمہوریت کیلئے زہر قاتل ہیں مگر ہر انتخابات سے قبل جماعتوں کے اندر نئی صف بندی شروع ہوجاتی ہے اور توڑ پھوڑ کا ایک نیا سلسلہ جنم لیتا ہے، ہ میں یہ سوچنا ہے کہ آخر ایساکیوں ہے یہ سلسلہ آخر کب تک بدقسمتی سے پاکستان میں سیاسی جماعتیں اپنا جمہوری تشخص قائم نہ کرسکیں ، جو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں موجود سیاسی جماعتوں کا خاصہ ہے ۔ دنیا میں سیاسی جماعتیں افراد کی تربیت کا ادارہ ہوتی ہیں ، مگر ہمارے ہاں اقتدار تک پہنچنے کیلئے ایک اکھاڑا بن کر رہ گئیں ہیں ، ایک پارٹی کے اندرسے کئی پارٹیوں کاجنم لینا اور دھڑے بندیوں کا بننا اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں مفاداتی گروپس ہیں ، پارٹیوں کے اندر بندربانٹ ہے ۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوری کلچر اور سیاسی پختگی کی ضرورت ہے تاکہ ان فرسودہ روایات کا خاتمہ ہو، دوسری جانب سیاسی جماعتوں کی رجسٹریشن کا بھی ایک پورا قانون اور لاءحہ عمل بنایا جائے، ہمارے ہاں اس وقت 350سے زائد سیاسی جماعتیں الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ ہیں ،15,16جماعتوں کے علاوہ باقی تمام جماعتیں کے قیام کی وجہ کیا ہے ، وہ اس ملک کیلئے کونسا تعمیری کام کررہی ہیں ارباب اختیار کو سوچنا ہوگا اور ملک کی سمت درست کرنے کیلئے سیاسی جماعتوں کی درست سمت کا تعین کرنا ہوگا ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں