سیاسی محاذآرائی، بدترین جمہوریت کے 10 سال

اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ جمہوریت ہی پاکستان کا نظا م ہے اور اسی کے تسلسل میں پاکستان کی بقا اور ترقی کا راز ہے مگروطن عزیز کے قیام سے لے کر آج تک یہ طے نہ ہوسکا کہ جمہوریت نے پاکستان کو ثمرآباد کیا یا برباد کیا;238; یہ بھی طے نہ ہوسکا کہ تمام تر مشکلات ، رکاوٹیں اور محاذ آرائی ہمیشہ جمہوری ادوار میں کیوں ہوتی ہے;238; کیا ہمارے جمہوری نظام میں خامیاں ہیں ;238; کیا ہمارے جمہوری قائدین غلطیوں پر غلطیاں کرتے ہیں اور اس کا مورد الزام دوسروں کو ٹھہراتے ہیں ;238; نومبر2007 میں جب پرویز مشرف نے نئے انتخابات کا اعلان کیا تو ملک میں جمہوریت کے قیام کی امید پیدا ہوئی ۔ عوام جو فوجی صدر کے 7سالہ دور سے تنگ آچکی تھی نے سکھ کا سانس لیا اور جمہوریت سے اپنی امیدیں وابستہ کرلیں ، مگر جمہوریت کے قیام کے بعد سے لے کر اب تک 10سالہ سفر سنسنی خیز سیاسی ڈراموں ، واقعات اور عدم استحکام کی ایک داستان بن چکا، اس میں سے کچھ اہم واقعات قارئین کیلئے پیش کررہا ہوں تاکہ ہم کوئی رائے قائم کرسکیں کہ اپنے ہی جمہوری نشیمن کو آگ لگانے کیلئے جمہوریت کے دعویداروں نے کیا کیا غلطیاں کی ہیں ۔

انتخابات2008

آمریت کا 8سالہ دور زوال پذیر تھا، پرویز مشرف یہ سمجھ چکے تھے کہ اقتدار کی منتقلی کے بغیر اب کوئی چارہ نہیں ، 8 نومبر 2007ء کو مشرف نے اعلان کیا کہ آئندہ انتخابات کی تاریخ 15 فروری 2008ء ہو گی ۔ انتخابات کی تاریخیں بدلتی رہیں ، تاہم محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد، الیکشن کمیشن کے ایک اجلاس میں یہ طے پایا گیا کہ انتخابات 18 فروری 2008ء کو ہی ہوں گے ۔ انتخابات 2008 میں 44 فیصد ٹرن آءوٹ رہا اور پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت برسراقتدار آئی ۔

عدلیہ بحالی تحریک کا ازسر نو احیاء

سال2008کے عام انتخابات کے بعد 24مارچ2014کو نومنتخب وزیراعظم یوسف رضاگیلانی نے اعلیٰ عدلیہ کے زیرحراست ججوں کی رہائی کا اعلان کردیا، مگر بحالی کی ضد ابھی قائم تھی ۔ اس وقت میثاق جمہوریت پر دستخط کرنیوالی دو بڑی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی آپس میں گتھم گتھا ہوگئیں ، بڑی جمہوری سمجھ بوجھ کا دعویٰ کرنیوالی دونوں جماعتوں نے تین معائدے کیے جو ناکام ہوئے، نتیجتاً عدلیہ بحالی تحریک کا ازسر نو احیاء ہوا ۔ نوازشریف نے وکلاء تنظیموں کے ساتھ مل کر 12تا16مارچ 2009کو لانگ مارچ کا اعلان کیا ۔ حکومت انکاری ہی رہی ، تاہم15مارچ کی شب لانگ مارچ لاہور سے نکلا،16مارچ کی صبح افتخار چوہدری کی بحالی کا وعدہ کیا گیا ۔ 21 مارچ 2009ء کو نصف شب افتخار چودھری اپنی کرسی پر براجمان ہوگئے ۔

ٓآزاد عدلیہ اور حکومت کے درمیان محاذ آرائی

پیپلزپارٹی کی حکومت کے دوران حکومت اور عدلیہ کے درمیان تعلقات کافی کشیدہ اور بداعتمادی کا شکار رہے ۔ افتخار چوہدری کی بحالی کے بعد سب سے زیادہ از خود نوٹس کے تحت مقدمات کی سماعت کی گئی ۔ سپریم کورٹ نے ٹی وی چینلز پر چلنے والی خبروں پر کہ حکومت چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری سمیت دیگر ججوں کی بحالی کا اعلامیہ واپس لینا چاہتی ہے رات گئے از حودنوٹس لیاگیا ۔ صدر زردرای کے خلاف سوئس مقدمات کو دوبارہ کھولنے کے حوالے سے سپریم کورٹ کا دباءو قائم رہا ۔ این آر او کو کالعدم قراردیا گیا ۔ بجلی کی قیمتوں پر ازخودنوٹس اور لاپتہ افراد کا کیس زیر بحث رہا ۔ حج انتظامات میں مبینہ بدعنوانی کا معاملہ بھی سپریم کورٹ میں زیرِسماعت آیا اور اس سکینڈل کی وجہ سے دو وفاقی وزراء حامد سعید کاظمی اور اعظم سواتی کو اپنی وزارتوں سے ہاتھ دھونا پڑے ۔

ایبٹ آباد آپریشن

امریکہ بہادر پاکستان میں سیاسی عدم استحکام کی ہمیشہ وجہ رہا ہے، آمرانہ دور میں امریکہ کیلئے سب اچھا تھا جبکہ جمہوری دور میں ہم پر الزامات کی بارشیں کردی جاتی ہیں ۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں ایبٹ آباد میں امریکہ کی جانب سے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مبینہ طور پر اسامہ بن لادن کے خلاف آپریشن کیا گیا، امریکہ جانب سے یہ دعوی بھی کیا گیا کہ حملے کے نتیجے میں اسامہ بن لادن مارا گیا ہے ۔ قومی سلامتی پر ہونے والے حملے کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کے جج جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک کمیشن تشکیل دیا گیا ،کمیشن نے طویل تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ وفاقی حکومت کو پیش کی،لیکن اس رپورٹ سے پردہ بھی نہیں اٹھایا جا سکا ۔

میموگیٹ سکینڈل

پیپلزپارٹی دور حکومت میں ادارو ں کے درمیان حالات بگڑتے ہی رہے ۔ سول اور عسکری قیادت میں اختلافات اس وقت شدت اختیار کرگئے جب امریکہ بہادر ہی کی آشیرباد سے ہی میموگیٹ سکینڈل سامنے آیا ۔ میموگیٹ تنازعہ پاکستان کی سیاسی حکومت کی طرف سے مبینہ طور پر امریکی ایڈمرل ماءک ملن کو 2011ء میں لکھا گیا مراسلہ ہے جس میں پاکستان کی فوجی قیادت کو برطرف کرنے کے لیے امریکی مدد مانگی گئی اور جس کے بدلے امریکہ کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں زیادہ مدد اور پاکستان کے جوہری پروگرامنگ محدود کرنے کی پیشکش کی گئی ۔ اپوزیشن جماعت یہ معاملہ لے کر سپریم کورٹ گئی جہاں سے سول ملٹری تنازعہ مزید کھل کر سامنے آگیا ۔ عدالت میں فوجی قیادت نے جواب داخل کروایا کہ مراسلہ حقیقت ہے جبکہ زرداری نے عدالت میں جواب داخل نہیں کروایا ۔ وفاقی حکومت کے جواب کے مطابق مراسلہ محض کاغذ کا ایک ٹکرا ہے جس کی کوئی وقعت نہیں ۔ 30 دسمبر 2011ء کو عدالت نے درخواست قابل سماعت قرار دیتے ہوئے تین منصفین پر مشتمل تحقیقاتی لَجنہ قائم کر دیا ۔ ہفتوں بعد وزیراعظم گیلانی نے بیان لگایا کہ عدالت میں فوجی قیادت کی طرف سے جمع کرائے جوابات غیر قانونی ہیں ۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میموگیٹ سکینڈل کا معاملہ پیچھے چلا گیا اور حکومت کی جانب سے عدلیہ کی توہین کا معاملہ آگے آگیا ۔

یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی

سا ڑھے چار سال بر سر اقتدار رہنے والے سید یوسف رضا گیلانی کو سپریم کورٹ نے سوئسں حکام کو خط لکھنے سے متعلق عدالتی احکامات کی خلاف ورزی پر توہین عدالت کا مرتکب قرار دیتے ہوئے انھیں نا اہل قرار دے دیا، جس پر انہیں وزارت عظمی چھوڑنا پڑی اور راجہ پرویز اشرف نئے وزیر اعظم منتخب ہوئے ۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس وقت یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کیلئے مرکزی کردارمیاں نوازشریف نے ادا کیا تھا، جس کا انہیں آج پچھتاوا ہے ۔

سیاست نہیں ریاست بچاءو

ڈاکٹر طاہرالقادری نے دسمبر2012 میں سیاسی انگڑائی لی اور لانگ مارچ کا اعلان کردیا ۔ سال 2013کے آغاز میں ڈاکٹر طاہرالقادری ’’ریاست بچاءو ‘‘ دھرنا لے کر اسلام آباد داخل ہوئے ، اور چار دن کا دھرنا دیا ۔ دھرنا حکومت کے ساتھ ایک معائدے کی صورت میں منطقی انجام کو پہنچا، جس کو پایہ تکمیل تک نہ پہنچایا جاسکا ۔

عام انتخابات 2013 اور دھاندلی تحریک

پاکستان پیپلزپارٹی نے ملک میں پہلی بار اپنی جمہوری حکومت کے پانچ سال مکمل کیے اور اقتدار کی منتقلی پاکستان مسلم لیگ ن کے حصے میں آئی، الیکشن 2013 میں مسلم لیگ ن اکثیریتی جماعت بن کر سامنے آئی اور نوازشریف وزیراعظم منتخب ہوئے، مگر بدقسمتی سے جیسے پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت کے پانچ سال مسلسل انتشار کا شکار رہے اور ابتداء میں ہی مشکلات سامنے آگئیں ایسے ہی دھاندلی تحریک نئی حکومت کیلئے پہلا امتحان ثابت ہوئی ۔

سانحہ ماڈل ٹاءون

17جون2014کو ملکی تاریخ کا بدترین سانحہ رونما ہوا، ماڈل ٹاءون لاہور میں منہاج القرآن سیکرٹریٹ اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے گھر کے باہر لگے بیرئیرز ہٹانے کے آپریشن میں 14افراد جاں بحق جبکہ80سے زائد زخمی ہوئے، یہ واقعہ جمہوری دور کے ماتھے پر سیاہ دھبہ ثابت ہوا ۔ تاہم اس واقعے کی آج تک تحقیقات مکمل نہ ہوسکیں ۔ معاملہ داخل کورٹ ہے اور300سے زائد پیشیاں متاثرین بھگت چکے ہیں ۔

آزادی وانقلاب مارچ ;47;دھرنا

مسلم لیگ ن کی حکومت کیلئے آزادی اور انقلاب مارچ بڑا امتحان ثابت ہوئے، عمران خان دھاندلی کے الزامات جبکہ طاہرالقادری سانحہ ماڈل ٹاءون کیلئے انصاف کا مطالبہ لے کر اسلام آباد کی جانب روانہ ہوئے ۔ 14اگست2014کو نکلنے والا یہ قافلہ اسلام آباد میں خیمہ زن ہوگیا، دھرنا سنسنی خیز مراحل طے کرتا ہوا طوالت اختیار کرگیا ۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے22ستمبر کو دھرناملتوی کیا جبکہ عمران خان نے126دنوں تک اسلام آباد ڈیرے لگائے رکھے ۔ سیاسی حلقوں کی یہ سب سے بڑی شکست ہے کہ وہ فریقین کو مذاکرات پر نہ لاسکے، یوں تو جمہوریت کے دعوے کیے گئے مگر آمرانہ ضد قائم رکھی گئی ۔

سانحہ آرمی پبلک سکول اور نیشنل ایکشن پلان

پاکستانی قوم کے لئے دسمبر کی16تاریخ بڑا امتحان ثابت ہوئے جب انسان نما درندوں نے آرمی پبلک سکول کے نونہالوں کو یرغمال بنالیا ۔ اس المناک سانحے میں 9 اساتذہ، 3 فوجی جوانوں کو ملا کر کل 144 شہادتیں اور 113سے زائدزخمی ہوئے ۔ پاکستان آرمی نے 950 بچوں و اساتذہ کو اسکول سے باحفاظت نکال ۔ اس واقعے کے بعد سیاسی و عسکری قیادت نے نیشنل ایکشن پلان بنایا اور ملک دشمن دہشتگرد عناصر کیخلاف فیصلہ کن کاروائی کا آغاز ہوا، مگر نیشنل ایکشن پلان پر اتفاق کرنیوالی سیاسی جماعتوں نے جلد ہی اس پر مٹی ڈال دی ۔

پانامہ لیکس

عالمی ادارے آئی سی آئی جے نے 3اپریل کو پانامہ لیکس کے نام پر انکشافات کیے جس میں نوازشریف کے بچوں کی بھی آف شور کمپنیاں سامنے آئیں ، یوں تو پانامہ لیکس پر دنیا بھر میں ابتداء میں کچھ تبدیلیاں رونما ہوئیں لیکن کسی ملک میں سیاسی انتشار دیکھنے کو نہ ملا ، مگر پاکستان میں پانامہ کو لے کر جو ہنگامہ شروع ہوا اس نے حکومتی پہیے جام کردیئے ۔ عمران خان نے پانامہ پر تحریک کا آغاز کیا، جماعت اسلامی بھی پیش پیش رہی ۔ یہ کشمکش ہمارے سیاسی حلقوں کی پارلیمان میں شکست کی بدترین مثال ہے ۔

ایم کیو ایم میں مائنس ون

22 اگست 2016 کو بانی ایم کیو ایم الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کے بعد ریاستی، حکومتی و عوامی رد عمل کو دیکھتے ہوئے بظاہر 24 اگست 2016 کو پارٹی رہنما فاروق ستار نے اعلان کیا کہ ان کا الطاف حسین سے کوئی تعلق نہیں ۔ بظاہر یہ کسی بھی جماعت کی جانب سے اپنی لیڈر سے لاتعلقی کا واحد اور بڑا فیصلہ تھا، تاہم اس فیصلے کے پیچھے آج تک چہ میگیوئیاں ہیں کہ کہیں اندرون خانہ رابطے تو نہیں ۔

ڈان خبر کا معاملہ

6اکتوبر2016کوانگریزی اخبار ڈان میں سیرل الماءڈہ نے وزیر اعظم ہاوَس میں ہونے والے ایک اہم اجلاس کے حوالے سے خبر دی ۔ اس خبر میں غیر ریاستی عناصر یا کالعدم تنظیموں کے معاملے پر فوج اور سول حکومت میں اختلاف کا ذکر کیا گیا تھا تاہم حکومت اور فوج دونوں نے اس خبر کو من گھڑت اور بے بنیاد قرار دیا تھا ۔ مگر اس خبر نے سول اور عسکری حلقوں میں شدید ترین بدگمانیاں پیدا کردیں جس کے نتاءج ہم آج تک بھگت رہے ہیں ۔

نوازشریف کی نا اہلی

ملکی سیاست پر ایک ہی موضوع زیر بحث تھا، حکومت عدالت کے روبرو رہی ، نتیجتاً 28جولائی2017کو سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے پاناما لیکس کے معاملے میں اپنے متفقہ فیصلے میں وزیر اعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دیتے ہوئے ان کے اور ان کے خاندان کے افراد کے خلاف نیب میں ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا ۔ اپنی حکومت کے چوتھے سال نوازشریف بھی یوسف رضا گیلانی کی طرح نا اہل ہوگئے ۔

حاصل بحث

نومبر2007سے لے کر نومبر2017تک 10سالہ جمہوری سفر میں جمہوری قائدین کی اقتدار کی خواہش، انا، دوسروں کو نیچا دکھانے کی کوششوں اور باہمی عدم اعتماد نے عوام کو مایوس کیا ہے ۔ اداروں کے درمیان بداعتماد ی اپنے عروج کو پہنچ چکی ہے ۔ ملک کو اس وقت ایک گرینڈ ڈائیلاگ کی ضرورت ہے جس کی تجویز چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی دے چکے ہیں ۔ تمام مقتدر حلقے اور سٹیک ہولڈرز ایک ساتھ بیٹھ کر حل طلب مسائل کے حل کیلئے لاءحہ عمل طے کریں اور قائد اعظم محمد علی جناح کے ویژن کے مطابق پاکستان کو آگے بڑھانے کیلئے فیصلہ کریں مگر سوال یہ ہے کہ ذاتی مفادات کے شکنجے سے آزاد ہوکر کیا کوئی پاکستان کیلئے سوچے گا کیا ملک کی21کروڑ عوام کو جمہوریت کے حقیقی ثمرات ملیں گے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں