حذیفہ زیادتی و قتل کے مجرم کو کیفرکردار تک پہنچانے کیلئے فتح جنگ کی عوام، پولیس اور سول سوسائٹی نے ایسی مثالیں قائم کیں جو واقعی قابل داد ہیں، گزشتہ ہفتے ہی اس کیس کا فیصلہ سامنے آیا جس کے مطابق ایڈیشنل سیشن جج فتح جنگ نے اپنے فیصلے میں مجرم عبدالحئی کو سزائے موت سنائی جبکہ لاش کی بے حرمتی اور زیادتی کے معاملے میں سات سال قید بامشقت اور عمر قید کی سزا بھی سنائی، ایک سال قبل ہونے والے اس واقعے نے اہل فتح جنگ کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔
گزشتہ سال20اپریل2019کی شام فتح جنگ کا ننھا7سالہ حذیفہ شب برات کے پروگرام کیلئے تیاری میں مصروف تھا، اپنی والدہ کو سفید کپڑوں اور سفید ٹوپی کی فرمائش کی، زیب تن کیا اور خوشبو لگا کر رات کو ہونے والی شب بیداری میں شرکت کیلئے ضد کرنے لگا، اتنے میں مغرب کی اذانیں شروع ہوئیں، حذیفہ اپنے والد افتخاراحمد کے ساتھ مسجد روانہ ہوا، نماز مغرب کی ادائیگی کے بعد عامر نے بیٹے کو گھر جانے کو کہا جو چند قدم کے فاصلے پر ہی ہے اور خود نفلی نماز ادا کرنا شروع کی، افتخاراحمد نوافل کی ادائیگی کے بعد گھرآیا اور بیٹے کی ضد پر اس نے فیصلہ کیا کہ شب بیداری میں اپنے بیٹے کے ہمراہ شرکت کروں گا، لیکن جب گھر آیا تو گھر میں حذیفہ موجود نہ تھا، پریشانی ہوئی تو تلاش شروع کی اور یہ کئی گھنٹوں کی یہ تلاش اسی محلے کے ایک کنویں تک لے آئی، حذیفہ مغرب کی ادائیگی کے بعد گھر نہ جاسکا کیونکہ اسے عبدالحئی نامی درندہ بہلا کر اپنے ساتھ لے گیا اور ننھے حذیفہ کو زیادتی کا نشانہ بنایا، جس دوران دم گھنٹے سے حذیفہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھا، مجرم نے حذیفہ کی لاش کو قریبی کنویں میں پھینک دیا جو اس بے نامی مدرسے کی عمارت کے عقب میں واقع ہے، ابتداء میں سبھی نے اسے حادثہ سمجھا لیکن پولیس یہ جان چکی تھی کہ یہ حادثہ نہیں ہوسکتا، کیونکہ کنویں کے اوپر رکھا گیا بھاری ڈھکن کسی بچے کیلئے اٹھانا مشکل ہے، وہی معاشرے کے حیلے بہانے شروع ہوگئے، لوگوں نے افتخاراحمد کے کان بھرنے شروع کیے کہ پولیس کے چکروں میں نہ پڑو، پوسٹ مارٹم نے ننھے بچے کو چیر دیں گے، ایک باپ جس کا جگر کا ٹکڑا پہلے ہی اس سے جدا ہوگیا تھا،وہ کسی فیصلے کی پوزیشن میں نہیں تھا تب ایس ایچ او عابد منیر نے کہا کہ اگر کوئی اس کی ایف آئی آر کرانے کو تیار نہیں تو میں خود اسی کی ایف آئی آر کروا کے اس کی موت کا سراغ لگاؤں گا، بھلا اس زمانے میں ایسے ایس ایچ او کہاں ملتے ہیں جو کسی کے بیٹے کو اپنا بیٹا کہیں، جو ٹال مٹول کے بجائے کیس کی حساسیت کے مطابق فیصلہ کریں، یہ صرف دعویٰ ہرگز نہیں تھا پورے شہر فتح جنگ نے دیکھا کہ عابد منیر کئی ہفتوں تک جائے وقوعہ پر آتے جاتے رہے اور اپنا کردار نبھاتے رہے،ڈی ایس پی سکندر گوندل نے خود اس کیس کی تفتیشی ٹیم کی سربراہی کی،24اپریل کو اس کیس کے حوالے سے سیکشن377،302،301کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی، اور 9دن کے اندر قاتل کی نشاندہی کرنے میں کامیابی ملی، یقینا سکندر گوندل اور عابد منیر کو اگرسب انسپکٹر لہراسب خان جیسا تفتیشی آفیسر نہ ملتا تو ان کیلئے اس الجھے ہوئے کیس کی گھتیاں سلجھانا مشکل ہوتا، لہراسب خان نے دن رات ایک کرکے کیس سے جڑے حقائق کو اکٹھا کیا، اس کیس میں جتنا پولیس کا کردار قابل دید ہے اتنا ہی سول سوسائٹی اور مقامی صحافیوں کے کردار کو فراموش نہیں کیا جاسکتا، ابتدائی چند دنوں میں ہی سول سوسائٹی اور مقامی صحافیوں نے اس کیس میں بھرپور دلچسپی لے کر حذیفہ کو انصاف دلانے کی تحریک شروع کردی، سابق کونسلر حاجی محمد اعظم، ملک کامران خاکی، سردار احسن،لیاقت خان باجوڑی،سید وجاہت علی، فرحت عباس شاہ، حاجی سجاد، ملک ساجد، طارق قادری، نجم ثاقب، تعبیرشاہ،ثاقب داؤد، عفی کھوکھر، وقار علی، عثمان علی، عجب اعوان، دانش نواز، امداد حسین، سفیر ملک سمیت مقامی تاجروں، مذہبی رہنماوں اور سماجی کارکنان نے میرے ساتھ مل کر بھرپور مہم کی، واقعے کے چند روز بعد ہی ہم نے فتح جنگ کی تاریخ کا سب سے بڑا احتجاجی مظاہرہ دیکھا۔ جمعہ کی روز بلایا گیا یہ مظاہرہ 3بجے شروع ہوا تو فتح جنگ کے مین چوک پر تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی، اس کیس کے حوالے سے جہاں پولیس کا کردار قابل دید، سول سوسائٹی کا بہترین ردعمل تھا وہاں اس کیس کوعدالت میں لے جانے اور عدالت کے اندر مجرم کو بے نقاب کرنے میں حذیفہ کے وکیل راجہ رضوان چراغ ایڈووکیٹ کے کردار کی تعریف نہ کی جائے تو مضمون نامکمل ہے، راجہ رضوان نے اس کیس میں حذیفہ کو انصاف دلانے میں متاثرہ فیملی سے ایک روپیہ بھی لینا اپنے اوپر حرام سمجھا اور شب و روز اس کیس کو دئیے اور انتہائی دلیری کے ساتھ کیس کو لڑا، کیس کے دوران انہیں جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی ملتی رہیں جس کی وجہ سے پولیس کی جانب سے انہیں سیکیورٹی بھی فراہم کی جاتی رہی لیکن اس شیر نے دھمکیوں کی پرواہ کیے بغیر سچ کا ساتھ دیا۔ جہاں سبھی نوجوان بزرگ اس کیس کے حوالے سے اپنے حصے کی کاوشیں سرانجام دے رہے تھے وہیں اس کیس کی اکلوتی گواہ ننھے حذیفہ کی ننھی بہن عائشہ ایمان کی بہادری کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جس نے بھری عدالت میں معزز جج صاحبہ کے سوالات کے جواب دیئے اور مجرم کی نشاندہی کی، کسی نے درست ہی کہا تھا کہ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے اور خون پھر خون ہے ٹپکے گا تو جم جائے گا، یقینا خون خود ہی اپنے قاتلوں کا سراغ مہیا کرتا ہے اور حذیفہ کے معاملے میں بظاہر کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا لیکن حقیقت کے پردے چاک ہوئے تو معلوم پڑا کہ خون نے اپنے قاتل کا سراغ خود دیا ہے۔
اہل فتح جنگ نے جہاں اس کیس کو مثال بنایا وہیں پر ضلعی پولیس آفیسر سید خالد ہمدانی (ڈی پی او) کی ذاتی دلچسپی اس کیس پر رہی، انہوں نے افسران کو ہر معاملے پر اپ ڈیٹ رکھنے کے آرڈرز کررکھے تھے، ان کی ذاتی دلچسپی سے اس کیس پر کام کرنے والے افسران کے حوصلے مزید جوان ہوگئے اور وہ معاملے کی تہہ تک گئے، بالاخر مجرم قرار واقعی سزا پاگیا،قانون کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کیس میں اپیل پر مجرم کو کسی قسم کی رعایت کی توقع نہیں ہے، گزشتہ روز پریس کلب فتح جنگ کے زیراہتما م اس کیس کے حوالے سے جانفشانی سے کام کرنے والے پولیس افسران اور سول سوسائٹی کے نمائندگان کو خراج تحسین پیش کرنے کیلئے”حذیفہ کی یاد میں“ کے موضوع پر تقریب کا اہتمام کیا گیا جس میں ڈی پی او سید خالد ہمدانی نے بھی شرکت کی، تقریب میں حوصلہ افزائی کیلئے شیلڈز اور انعامات دیئے گئے جبکہ فتح جنگ کے مخیر حضرات کی جانب سے اس کیس کو منطقی انجام تک پہنچانے کیلئے پولیس کو خصوصی انعامات بھی دیئے گئے، ملک نواب اور ملک حبیب کی جانب سے پولیس کو دو لاکھ جبکہ متاثرہ فیملی کو ایک لاکھ روپے کیش دیا گیا، اس تقریب کے ذریعے اہل فتح جنگ کے پیغام دیا کہ ہم بچوں کا مستقبل اور حال دونوں ہر حال میں محفوظ چاہتے ہیں اور کوئی بھی شخص جو ہمارے بچوں کو میلی آنکھ سے دیکھے گا ہم اسے اپنے معاشرے میں برداشت نہیں کریں گے، پاکستان بھر میں اس شعور کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسے جرائم کا خاتمہ پولیس اکیلے نہیں کرسکتی جب تک ہم سب اپنی ذمہ داری کا احساس نہیں کریں گے، آئیے مل کر جدوجہد کریں اور پاکستان کو درندوں سے پاک کریں۔