بھولے کے نام سے مشہور 45 سالہ شخص لال چارسدہ کا رہائشی ڈھائی سالہ زینب ریپ و قتل کیس کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا، یہ تصور ہی نہیں تھا کہ بھولے سے کوئی ایسا گناہ سرزد ہوگا، نہ وہ پولیس کے شک کے دائرے میں تھا، لیکن شک کے دائرے میں آنے والے درجن بھر لوگوں کو پولیس نے ابتدائی تفتیش کے بعد چھوڑ دیا اور بالاخر بھولے کو گرفتار کرلیا، ہمارے معاشرے میں ایسے بھولے، پاگل، فاتر العقل افراد اکثر گھومتے پھرتے رہتے ہیں اور شعور کی کمی کی وجہ سے ان کا علاج بھی نہیں کروایا جاتا، میرے اپنے گاوں میں سلطان نامی ایک ملنگ پورے گاوں میں گھومتا ہے جس کی زبان پر ایک ہی لفظ ہوتا ہے ’’ایتھے ہی کدرے‘‘ یہاں ہی کہیں، ہر کوئی اس سے ہمدردی کرتا ہے لیکن آج تک کسی کو توفیق نہیں ہوئی کہ اس کے علاج کیلئے گاوں کے مخیر حضرات عملی کاوش کرسکیں، ایسی مثالیں آپ کے گاوں میں بھی ہوں گی، آپ کے گلی، محلے یا شہر میں ایسے پاگل افراد ہوں گے، مرد تو مرد خواتین کو بھی ایسے معاملے پر یکسر نظرانداز کردیا جاتا ہے، بھولے تو ایسے تیسے زندگی بسر کرتے ہیں لیکن بھولیوں کے ساتھ جو ہوتا ہے، پاگل خواتین کے ساتھ معاشرے میں جو بیت جاتا ہے وہ قلم لکھنے سے قاصر ہے۔
بات ہورہی تھی، چارسدہ کے بھولے کی، یہ سوال مقامی پولیس کیلئے گلے کی ہڈی بن چکا تھا کہ فاتر العقل انسان سے ایسا گھنائونا فعل کیوں ہوا، جیسے یہ سوال پریشان کن تھا، اس کا جواب اس سے بھی زیادہ پریشان کن ہے، ہوا یوں کہ بھولے لال کو سر درد ہوا تو وہ قریبی میڈیکل سٹور میں چلا گیا تاکہ دوکاندار سے سردرد کی گولی لےسکے، لیکن دوکاندار نے پاگل شخص کے ساتھ بھیانک مذاق کیا، اور اسے سردرد کے بجائے شہوت بڑھانے کی گولیاں دی دیں۔جس میں ایک گولی ملزم نے کھا لی۔نتیجتاً ایسا شخص جس کی عمر کا بڑا حصہ شادی کے بغیر گزر گیا، اس نے اپنی شہوت مٹانے کیلئے ڈھائی سالہ زینب کا سہارا لیا، دوکاندار کا کیا گیا مذاق معصوم زینب کی عزت اور زندگی دونوں اجاڑ گیا، ہمارے معاشرے کا کتنا بڑا ظلم ہے، ہم میں سے اکثر نوجوان شرارت میں معاشرے کے بھولے افراد کو نشہ آور اشیا پلا کر ان کی بدحواسی سے محظوظ ہوتے ہیں، پولیس نے دوکاندار کو بھی گرفتار کرکے اس پر مقدمہ درج کرلیا ہے، لیکن وہ اس کی کتنی بڑی سزا پائے گا؟ حالانکہ وہ زینب کے قتل کا اصل ذمہ دار ہے، ہمارے معاشرے میں پائے جانے والے ایسے بھولے افراد ہماری خصوصی محبت کے حقدار ہیں مگر افسوس کے ہم ان کو ان کے حقوق دینے کی بجائے ان پر طنزیہ وار کرتے ہیں اور بعض خود سر جاہل لوگ تو ان افراد سے مار پیٹ بھی کرتے ہیں،ایسے بھولے افراد کی اکثریت مزارات کے لنگرخانوں کے ذریعے اپنی پیٹ کی بھوک مٹاتے دکھائی دیتی ہے، پاکستان میں ذہنی امراض کے حوالے سے شعور نہ ہونے کے برابر ہے، ہمارے ہاں ذہنی مریض کا مطلب گالی لیا جاتا ہے اور کوئی اس مرض میں مبتلا ہوجائے تو گالی بن جاتا ہے۔
پاکستان میں ذہنی صحت کے بڑھتے ہوئے مسائل کا اندازہ عالمی ادارہ صحت کے ان اعداد و شمار سے لگایا جا سکتا ہے جس کے مطابق ملک میں ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ افراد ذہنی امراض کا شکار ہیں۔حکومتی ترجیحات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ صرف پانچ سے 7ایسے سرکاری ہسپتال ہیں جہاں نفسیاتی امراض کا علاج ہوتا ہے۔ماہرینِ نفسیات کی تعداد 300 کے قریب ہے اور ایسے میں مجبور افراد اکثر پیری فقیری کو اپنی آخری امید مانتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے رویوں پر غور کریں اور حکومت وقت اس طرف توجہ دے، رہی بات چارسد ہ کے بھولے کی تو اس کے ساتھ اب کیا ہوگایہ بھی سوالیہ نشان بن گیا ہے، ہمارے قانون کے مطابق کوئی بھی جرم ہو اگر ایک شخص کا ذہنی توازن درست نہ ہو تو اس پر قانون کی جانب سے کوئی سزا لاگو نہیں ہوتی۔اب میڈیکل بورڈ کویہ پتہ لگانے کی کوشش کرنی ہے کہ واردات کے وقت ملزم کی ذہنی کیفیت کیسی تھی۔ اگر یہ ثابت ہو کہ اس کا توازن درست نہیں ہے اس کے بعد اگر متعلقہ شخص نے چاہے کتنا ہی بڑا جرم کیا ہو اس کو قانوناً کوئی سزا نہیں ہو سکتی۔تاہم ایسے شخص کو ذہنی امراض کے کسی مرکز بھجوا کر تب تک وہاں رکھا جاتا ہے جب تک وہ ٹھیک نہیں ہوجاتا۔بھولا آزاد ہوجائے گا، دوکاندار بھی معمولی سزا کے بعد آزاد ہوجائے گا، لیکن ذرا سوچیے والدین عمر بھر کس کرب میں گزاریں گے؟