ڈونلڈ ٹرمپ کی واپسی: مشرق وسطیٰ میں بڑی جنگ کا پیش خیمہ ہوسکتی ہے

ٹرمپ کی آمد کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ کے استحکام کی خبریں آنا شروع ہوگئیں کیونکہ یہ ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخابی نعرہ تھا، لیکن صورتحال یکسر مختلف ہے، مشرق وسطیٰ میں نہ صرف کشیدگی بڑھے گی بلکہ ٹرمپ کے کچھ خوفناک فیصلے علاقائی جنگ اور اسرائیل کے عزائم کو تقویت دیں گے، ٹرمپ کے اسرائیل سے گہرے تعلقات اور وہاں کی بااثر شخصیات کے ساتھ روابط فلسطینیوں کے لیے بہتر مستقبل یا ریاست کے قیام کیلئے نہیں بلکہ حالات کی مزید کشیدگی کا باعث بن سکتے ہیں۔

سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ٹرمپ کا مشرق وسطیٰ میں علاقائی نظم کا نظریہ عرب اسرائیل تعلقات کی معمول پر لانے کے تصور پر مبنی ہے۔یہ فریم ورک ہی فلسطینی مسئلے کو نظرانداز کرتا ہے۔ اسرائیلی میڈیا نے ٹرمپ کی منتخب کی گئی ٹیم کو اسرائیل کی ’’ڈریم ٹیم’’ کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ واضح ہے کہ اگر کوئی ڈونلڈ ٹرمپ کے دوبارہ منتخب ہونے پر خوشی منانے کے لیے تیار تھا تو وہ قابض صہیونی ریاست کا وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو ہی تھا۔ نیتن یاہو نے 5 نومبر کے نتائج سے پہلے ہی ٹرمپ کی “سب سے بڑی واپسی” کی پرجوش تعریف کی۔ اسرائیل کے وزیر دفاع، اسرائیل کاٹز نے بھی خوشی کا اظہار کیا، ٹرمپ کی ممکنہ واپسی کو ایران کی قیادت میں “مزاحمتی محور” پر حملے کا موقع قرار دیا۔

اپنی انتخابی مہم میں ٹرمپ نے غزہ میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی منصوبوں کے خیالات پیش کیے ہیں، لیکن جنگ کے بعد کی بحالی کے لیے کوئی واضح حکمت عملی بیان نہیں کی۔ ادھر، اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان جاری جھڑپیں ان پیچیدگیوں میں اضافہ کرتی ہیں جن کا سامنا ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس سنبھالنے پر ہوگا۔ٹرمپ کی غیر متوقع اور غیر مستحکم فیصلہ سازی واضح طور پر ایران اور اسرائیل کے درمیان کشیدگی کو بڑھا سکتی ہے۔اس حوالے سے اسرائیلی میڈیا کی خبر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ جس میں واضح کہا گیا ہے کہ ٹرمپ ایران میں رجیم چینج کے منصوبے پر کام کررہے ہیں۔ اب آتے ہیں ٹرمپ کی ٹیم کی جانب جسے اسرائیل نے ڈریم ٹیم کا نام دیا ہے۔

یروشلم پوسٹ نے امریکی صدر ٹرمپ کی ٹیم کو اسرائیل کیلئے ڈریم ٹیم قرار دیا ہے۔ ایک جانب ٹرمپ غزہ جنگ روکنے کا وعدہ کرتے دکھائی دیتے ہیں دوسری جانب ان کی کابینہ میں ایک سے بڑھ کر ایک اسرائیل کا حمایتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ تقرریوں دیکھیں، جن میں اسرائیل کے مضبوط حامی شامل ہیں۔ اہم شخصیات میں مارکو روبیو کو سیکرٹری آف اسٹیٹ، پیٹ ہیگسیث کو سیکرٹری آف ڈیفنس، اور مائیک ہکبی کو اسرائیل کے لیے سفیر مقرر کیا گیا ہے۔ ان تقرریوں کو دائیں بازو کے اسرائیل حامیوں نے ممکنہ “ڈریم ٹیم” کے طور پر سراہا ہے۔

دوسری جانب امریکی مسلم رہنماؤں نے، جو ریپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت کر رہے تھے تاکہ بائیڈن انتظامیہ کی اسرائیل کے غزہ میں جنگ اور لبنان پر حملوں کی حمایت کے خلاف احتجاج کیا جا سکے، کہا ہے کہ وہ ٹرمپ کی کابینہ کے چناؤ سے شدید مایوس ہیں۔انہوں نے کہاایسا لگتا ہے کہ اس انتظامیہ کو مکمل طور پر نیو کنزرویٹوز اور انتہائی پرو اسرائیل، پرو جنگ لوگوں سے بھرا گیا ہے، جو صدر ٹرمپ کی طرف سے امن پسند اور جنگ مخالف تحریک کے لیے ایک ناکامی ہے۔ ٹرمپ کے پچھلے دور حکومت میں افغانستان، شام و مشرق وسطیٰ سے امریکی فوج کو واپس بلایا گیا، ٹرمپ نے کوئی بڑی جنگ نہیں چھیڑی، لیکن فلسطین کاز کو شدید دھچکا پہنچایا۔

ٹرمپ کے دور میں امریکہ نے مقبوضہ بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کیا، گولان کی پہاڑیوں اور ویسٹ بینک میں غیر قانونی یہودی بستیوں پر اسرائیلی خودمختاری تسلیم کی اور ڈیل آف دی سنچری کے تحت متحدہ عرب امارات، بحرین و دیگر کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کروائے۔ ٹرمپ نے اسرائیلی ایماء پر ایران کے جنرل قاسم سلیمانی کو بھی نشانہ بنایا۔ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے بھی یکطرفہ طور ختم کیا۔ پولنگ ڈے پر ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر کہا کہ ایران کو کسی صورت جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔یہ تمام حقائق واضح کرتے ہیں کہ ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں امن نہیں بلکہ مزید جنگ کے اسباب پیدا کریں گے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں