سیدِ مقاومت، سید حسن نصر اللہ شہید کی جدوجہد پر ایک نظر

تحریر و ترتیب : رضی طاہر

وہ شخصیت جس نے اپنی زندگی کی چھ ہنگامہ خیز دہائیاں لبنان اور دیگر عرب اور اسلامی ممالک پر غاصب صیہونی رجیم کے کئی دہائیوں کے قبضے اور جارحیت کے خلاف جدوجہد میں گزاریں۔ وہ شخصیت کہ جس نے اسرائیل کیخلاف دو جنگوں میں کامیابی حاصل کی۔ وہ شخصیت جس نے 3 دہائیوں تک اسرائیل کو سینکڑوں محاذوں پر نہ صرف شکست دی بلکہ اپنے الفاظ کو عمل سے ثابت کیا کہ اسرائیل مکڑی کے جالے کی طرح ہے۔ وہ شخصیت جس نے گریٹر اسرائیل کے خواب کو چکنا چور کیا، وہ شخصیت کہ جس نے شام میں امریکی پراکسی داعش کو شکست دی، اس شخصیت کو سید مقاومت؛ سید حسن نصر اللہ کہتے ہیں ، جنہوں نے 27 ستمبر2024 کو قدس کی راہ میں شہادت دے دی۔

حزب اللہ کے سیکرٹری جنرل سید حسن عبدالکریم نصر اللہ 31 اگست 1960 کو صوبہ لبنان کے علاقے برج حمود میں پیدا ہوئے۔ آپ اپنے دس بہن بھائیوں میں نویں نمبر پر تھے، آپ کے والد کا نام عبدالکریم نصراللہ تھا اور وہ پھلوں اور سبزیوں کی تجارت کرتے تھے۔ آپ نے النجاح اور سان الفیل اسکولوں سے ابتدائی تعلیم حاصل کی، جن میں عیسائی طلبہ کی اکثریت تھی۔ 1978 میں لبنان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو اس وقت آپ 15 سال کے ہوچکے تھے اور آپ کو اپنے خاندان کے ساتھ آبائی علاقے البازوریہ واپس جانا پڑا۔ آپ نے علاقے کے صور اسکول میں تعلیم جاری رکھی، نصراللہ بعد میں امل تحریک میں شامل ہو گئے اور البازوریہ علاقے میں اس تحریک کے نمائندے کے طور پر معروف ہوگئے۔ اس دوران آپ کی ملاقات مسجد امام صادق علیہ السلام کے امام سید محمد غراوی سے ہوئی جنہوں نے آپ کو اعلی حوزوی تعلیم کے لئے نجف اشرف جانے کا مشورہ دیا۔

نجف اشرف میں آپ نے حزب اللہ کے سابق سیکرٹری جنرل سید عباس موسوی سے ملاقات کی اور ان کے ساتھ مضبوط دوستی اور تعلق قائم کیا اور یہ دوستی لبنان میں حزب اللہ کے قیام میں ان کی پرجوش شرکت کا باعث بنی۔ نجف کے ساتھ ساتھ حسن نصراللہ نے کچھ عرصہ ایران میں گزارا، جہاں انہوں نے علمی شہر قم میں مزید تعلیم حاصل کی۔

سید حسن نصراللہ 1979 میں اپنی تعلیم کا پہلا مرحلہ مکمل کرنے کے بعد لبنان واپس آئے اور ایک بار پھر اپنی حوزوی کی تعلیم کو بعلبک میں قائم حوزه علمیہ جو کہ الدعوة تحریک کے بانی آیت اللہ سید محمد باقر صدر کی نگرانی میں تھا، جاری رکھا۔ حزب اللہ کے شہید سیکرٹری جنرل بعد میں بقاع کے علاقے میں امل تحریک کے نمائندے اور اس تحریک کے مرکزی سیاسی دفتر کے رکن بن گئے۔بعد ازاں 1982 میں اسرائیل نے لبنان پر حملہ کیا جس کے خلاف حزب اللہ نامی تنظیم مزاحمت بن کر ابھری تو حسن نصر اللہ تحریک امل چھوڑ کر حزب اللہ میں شامل ہوگئے۔وہ شعلہ بیان مقرر تھے اور انتظامی مہارت سے مالامال بھی اور ساتھ اپنا پورا وقت تنظیم کے لیے وقف کردیا تھا۔ حسن نصر اللہ جلد ہی حزب اللہ کی مرکزی قیادت کے قریب ہوگئے۔

جب 1992 میں اُس وقت کے جنرل سیکرٹری عباس موسوی کو اسرائیل فضائی حملے میں شہید کردیا تو قیادت حسن نصر اللہ نے سنبھال لی۔صرف 32 سال کی عمر میں اتنی بڑی ذمہ داری ملنے پر حسن نصر اللہ نے تنظیم میں ایک نئی روح پھونک دی اور کئی محاذ پر اسرائیلی فوج کو شکست دی۔یہ حسن نصر اللہ کی قیادت میں اسرائیلی فوج کو دھول چٹانے کا نتیجہ تھا کہ قابض فوج کو 2000ء میں لبنان کے جنونی علاقوں کو خالی کرنا پڑا۔حزب اللہ کے سربراہ حسن نصر اللہ نے اپنی مسلح تنظیم کو میزائل حملوں اور گوریلا کارروائیاں سے روشناس کرایا اور سیاسی میدان میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔2005ء میں لبنان کے وزیر اعظم رفیق حریری کے قتل کے بعد حسن نصر اللّٰہ کا مدبرانہ سیاسی کردار بھی سامنے آیا جب انھوں نے سیاسی دھڑوں کے درمیان ثالث کا کردار نبھایا۔

سال 2000 میں اسرائیل کے انخلاء کے بعد سید حسن نصر اللہ فاتحانہ تقریر کرتے ہوئے

شہید سید حسن نصر اللہ کی مقبولیت میں جولائی 2006 کی 33 روزہ جنگ کے بعد بے پناہ اضافہ ہوا، ایک ایسی جنگ جس نے صیہونی حکومت کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا اور اس رجیم کو ذلت کے ساتھ جنوبی لبنان سے انخلاء پر مجبور کر دیا۔ شہید سید حسن نصر اللہ نے صیہونی حکومت کا مقابلہ کرنے کے بعد عرب اور اسلامی دنیا میں وسیع مقبولیت حاصل کی اور ان کا نام صیہونی حکومت کے خلاف اسلامی مزاحمت سے جوڑا گیا۔شام کی خانہ جنگی کے دوران، حزب اللہ نے شامی حکومت کی حمایت میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ حسن نصراللہ نے شامی صدر بشار الاسد کی حمایت کی اور حزب اللہ کے جنگجوؤں کو شامی فوج کی مدد کے لیے بھیجا۔جہاں انہوں نے ایک جانب نیٹو کے خطرات کا مقابلہ کیا تو دوسری جانب اسرائیل اور امریکہ کی پراکسی داعش کا قلع قمع کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔

سید حسن نصر اللہ کی قیادت میں حزب اللہ 7 اکتوبر 2023 کو طوفان الاقصی آپریشن کے آغاز کے ساتھ ہی صیہونی رجیم کے خلاف جنگ میں داخل ہوئی اور غزہ کی مزاحمت کے ساتھ حمایت اور یکجہتی کے محاذ کے طور پر سامنے آئی۔سید حسن نصر اللہ کی یہ حکمت عملی تھی کہ انہوں نے اسرائیل کو شمال کے بارڈر پر مسلسل مصروف رکھا، 11ماہ سے شمال کے بارڈر پر اسرائیل کی آدھی سے زیادہ فوج مصروف رہی، جبکہ اسی دوران تین لاکھ اسرائیلیوں نے شمال کے بارڈر سے انخلاء کیا جبکہ 50 بستیاں اور دو شہر مکمل ویران ہوگئے۔ اسرائیل کیخلاف سید حسن نصر اللہ کی کامیاب حکمت عملی کی وجہ سے اسرائیلی فوج کثیر الجہتی محاذ پر مصروف ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے غزہ کے اندر مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

مورخہ 27 ستمبر کی شب سید حسن نصر اللہ ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں مصروف تھے کہ بیروت کے علاقے ضاحیہ میں اسرائیل نے6عمارتوں پر بنکر بسٹر بم پھینکے جس کی وجہ سے سینکڑوں شہادتیں ہوئیں، اس حملے میں حزب اللہ کے روح رواں سید حسن نصر اللہ شہید ہوگئے۔ سید حسن نصر اللہ نے اپنی زندگی کی آخری تقریر میں کہا کہ ہم اپنے دوستوں سے شہادت کا درجہ پا کر ملیں گے۔ وہ حزب اللہ کے کمانڈر فواد شکر کی شہادت کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے گویا اپنی شہادت کا اعلان کررہے تھے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں