سال2019میں وزیراعظم عمران خان نے دیہاتی نوجوانوں اور دیہی کسانوں اور مویشی پال حضرات کو کٹے اور مرغیاں پالنے کا مشورہ دیا جسے اپوزیشن جماعتوں نے شدید تنقید کا نشانہ بنایا، اسی سلسلے میں نومبر2019میں اس پروگرام کیلئے حکومت پنجاب نے32کروڑ روپے جاری کیے، جس کے تحت گوشت کی پیداوار بڑھانے کیلئے کٹا بچاؤ اور کٹا فربہ پروگرام شروع کیا گیا گیا، جس کے تحت کٹا فربہ پروگرام کے تحت شہریوں کو کٹے پالنے کے عوض اعزازیہ انعام بھی دینے کا اعلان کیا گیا، دیکھنے میں یہ آیا کہ اس فیلڈ میں آنے والے نئے افراد اکثر فیڈ کا باقاعدہ علم نہ ہونے کی وجہ سے ناکام ہوگئے، کئی افراد کے مویشی مرگئے اور زیادہ تر کے مویشی موٹے تازے نہ ہوسکے جس کی وجہ سے انہیں شدید خسارے کا سامنا کرنا پڑا، چارے اور بھوسے کے اخراجات بھی کسانوں اور چھوٹے زمینداروں کی پہنچ سے دور ہوتے گئے اور مویشی رکھنا جان کا وبال بن گیا ، ایسے ماحول میں ایک امید کی کرن پیدا ہوئی ہے ۔
اٹک کے ایک گاؤں چھجی مار کے زمیندار ملک غلام حسین نے وزیراعظم کے ویژن کو حقیقی طور پر نہ صرف عملی جامہ پہنایا بلکہ تحقیقی ادارے کے قیام اور باصلاحیت ٹیم کے ساتھ پورے ملک کے مویشی پال حضرات کیلئے مثال قائم کردی۔ ایک سال قبل بنائے گئے چھجی مار لائیوسٹاک تجرباتی یونٹ کے تحت ابھی تک تین ملین سے زیادہ کے اخراجات کرکے مختلف تجربات کیے گئے، لیکن مویشی پال حضرات کیلئے جس تجربے نے پورے پاکستان میں دھوم مچادی ، وہ لائیو سٹاک کے کٹابچاؤ پروگرام کے تحت حکومتی سبسڈی کے طور پر ملنے والے کٹے کی نگہداشت اور کم لاگت سے زیادہ منافع ، زیادہ اور صحت مند گوشت کاحصول ہے۔
سال2019کے آخر میں لائیوسٹاک کے اس پروجیکٹ کیلئے حکومت پنجاب نے 32کروڑ جاری کیے تھے، ویسے تو یہ منصوبہ شہبازشریف کے دور سے جاری ہے جس میں مویشی پال حضرات کو حکومت کٹا فراہم کرتی ہے اور انہیں فی کٹا ماہانہ چار ہزار روپے بھی فراہم کرتی ہے تاکہ وہ اس کی بھرپور دیکھ بھال کرکے جب بیچیں تو انہیں منافع حاصل ہو، لیکن دیکھنے میں یہ آیا کہ منافع کا مطلب یہی4000سمجھ لیے گئے اور کٹے کو توانا کرنے اور صحیح عمر میں بیچنے کے حوالے سے شعور اجاگر نہ ہوسکا۔
عام بھوسے اور چارے پر پلنے والے مویشی منافع بخش ثابت بھی نہ ہوسکے، چھجی مار کے زمیندار ملک غلام حسین اور ان کی ریسرچ ٹیم کے ہیڈ ڈاکٹر خالد پرویز سابق ای ڈی او زراعت نے لائیو سٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ پروگرام کے اندر ایڈیشنل ڈائریکٹر لائیو سٹاک اٹک کی سرپرستی میں 25کٹوں پر تجربہ کیا،90دن کیلئے چھجی مار لائیو سٹاک تجرباتی یونٹ نے کٹوں کو بھوسے اور چارے کے بغیر ڈاکٹر خالد پرویز کے کاف فیٹینگ فیڈ فارمولا کے تحت پالا، 70دن تک ان کی صرف فیڈ میں پرورش کی گئی اور آخری20دنوں ایک کلو فی جانور سائیلج دیا گیا، اس تجربہ میں فی جانور ایک کلو اوسطاًاضافہ ریکارڈ کیا گیا۔اس تجربے کے بعد چارے اور بھوسے کے خرچ کے بغیر فیڈ کے مناسب خرچ پر مویشی کو پالا گیا اور حیران کن طور پر یہ تجربہ کامیاب ہوا اورانہیں حکومت پاکستان کی جانب سے دی جانیوالی سبسڈی کے علاوہ تین ماہ میں 3لاکھ41ہزار کا فائدہ پہنچا۔ پاکستان میں پہلی دفعہ یہ تجربہ کرنے والے ملک غلام حسین اور ڈاکٹر خالد پرویز کا کہنا ہے کہ وہ مویشی پال حضرات کی ہر طرح سے معاونت اور ٹریننگ کرنے کو تیار ہیں ، اب مویشی ان پر بوجھ نہیں ہیں بلکہ ایک اوسط سرمایے کے ساتھ ماہانہ ایک لاکھ روپے کمانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
اس کامیاب تجربے کے تحت لائیو سٹاک سیکٹرمیں ترقی کے نئے مواقع مہیا ہوں گے اور انٹرنیشنل مارکیٹ میں حلال پاکستانی گوشت پہنچ پائے گا۔ ملک غلام حسین نے حکومت پاکستان سے اپیل کی ہے کہ ہمارے تجربے سے فائدہ اٹھاکر مویشی پال حضرات کو باقاعدہ شعور دیا جائے تاکہ وہ نہ صرف خود منافع کماسکیں بلکہ حکومت جو سبسڈی دیتی ہے اس کی بھی ضرورت نہ پڑے اور یہ کاروبار خودمختار ہوجائے۔ صرف زمیندار ہی نہیں بلکہ وہ افراد بھی اس سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں جن کے پاس زرعی زمین موجود نہیں ہے۔