مفتی تقی عثمانی کا اسماعیل ہنیہ کی شہادت پر ایران کے متعلق منفی بیان اور کچھ حقائق
یہ بات تسلیم کرتے ہوئے کہ ایران وہ واحد ملک ہے جو سرکاری طور پر حماس کو تسلیم کرتا ہے اور حماس کو فنڈز کرتا ہے اور کوئی اسلامی ملک حماس کو سرکاری طور پر تسلیم نہیں کرتا نہ ہی امداد دیتا ہے، مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ ایران میں ان کا قتل ہونا معمہ ہے۔ اس کی کوئی توجیہی سمجھ نہیں آرہی ہے۔
مفتی تقی عثمانی نے کہا کہ عالمی سطح پر ایسا کوئی حادثہ ہوتا ہے تو اس کی تفصیلات دی جاتی ہیں، کہا جارہا ہے کہ گائیڈڈ میزائل کے ذریعے شہید کیا گیا۔
مفتی تقی عثمانی کی کم علمی ہے یا پھر بغض، ایران نے تمام تر تفصیلات فراہم بھی کیا ہیں، گائیڈڈ پروجیکٹائل ائیربورن پروجیکٹائل کے ذریعے نشانہ بنایا اور اس فلیٹ میں تباہی کے منظر سب نے دیکھے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی نے نہیں دیکھے۔
ایران نے درجنوں افسران کو حراست میں لے کر تحقیقات شروع کی ہیں، مفتی تقی عثمانی نے نیویارک ٹائمز کی ایک پروپیگنڈا خبر کا حوالہ دیتے ہوئے بات کی، لگتا ہے ان کا مغربی میڈیا پر بھروسہ بہت ہے لیکن وہ الجزیرہ سمیت عرب میڈیا نہیں دیکھتے۔
مفتی تقی عثمانی کی آنکھوں میں بغض کی پٹی نہ ہوتی تو یقینا وہ یہ کہتے کہ ایران پر شہید کرنا، دراصل حماس اور ایران کے تعلقات خراب کرنے اور فلسطینی مقاومت کو مایوس کرنے کی سازش تھی۔
پاکستان کے مفکرین حماس سے ہی پوچھ لیں، حماس کے سربراہ کی شہادت کے بعد اسماعیل ہنیہ کے بیٹے، بیٹی، بہو اور حماس کے دیگر قائدین کے بیانات بھی دیکھ لیں۔ ابھی بھی حماس کا ایک وفد ایران میں موجود ہے جو کہ آئندہ کے منظرنامے کے حوالے سے حکمت عملی طے کررہے ہیں۔
اسرائیل کا کھلا دشمن ایران ہے اور اگر فلسطینی مقاومت کے لوگ ایران، سیریا، عراق، لبنان، غزہ میں شہید نہیں ہوں گے تو کیا وائٹ ہاوس میں ان کی شہادت ہوگی؟
گو کہ میں سنی ہوں لیکن اس وقت پوری دنیا کے سنی فکر کے علماء میں ایران کا مزاحمتی چہرہ دیکھ کر یہ بیتابی پائی جاتی ہے کہ نوجوان ان کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں اور اس بے تابی پر وہ ایران کیخلاف نفرت منبر و محراب سے پھیلاتے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ سنی مزاحمت کیوں نہیں ہے؟ اس وقت پوری دنیا میں تحریک طالبان افغانستان کے علاوہ کہیں کوئی سنی مزاحمت ہے جو کہ فلسطین کے حق میں ہو؟ بحرین ہو یا کویت، سیریا ہو یا عراق، لبنان ہو یا یمن، شیعہ مزاحمت ہی حماس کے شانہ بشانہ دکھائی دیتی ہے جبکہ آج بھی اسرائیلی و مغربی میڈیا میں سعودی عرب اور اسرائیل کی نارملائزیشن کی خبریں ہیں۔
پاکستان سے اسماعیل ہنیہ نے صرف ایک مطالبہ کیا تھا کہ ایک دھمکی ہی اسرائیل کو دے دیں، پاکستان نے 10 ماہ حماس کا نام لینے اور فلسطین کا جھنڈا اٹھانے پر پابندی لگائی رکھی۔ ترکی آج بھی اسرائیل کے ساتھ تجارت جاری رکھے ہوئے ہے۔ متحدہ عرب امارات نے آج تک اسرائیل سے تعلقات منقطع نہیں کیے۔ بحرین اب بھی امریکہ کو یمن کیخلاف اڈے فراہم کرتا ہے۔ مصر نے اب بھی غزہ کے راستے بند کررکھے ہیں۔ اردن آج بھی اسرائیل کو یقین دہانی کرارہا ہے کہ وہ ایران کا حملہ روکے گا۔ مراکش آج بھی اسرائیلی بحری جہازوں کو راستہ اور تیل دے رہا ہے۔ ایسے میں فلسطینی مزاحمت کے پاس ایران کے علاوہ امید کی کرن کہاں ہے؟
مسلکی و فرقہ واریت کی عینک کے ساتھ حالات کو دیکھنے سے حالات بدل نہیں جائیں گے، کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے منظرنامہ بدل نہیں جائے گا۔ حالات کا حقیقی مشاہدہ کرنا ہوگا اور مسلک کی تفریق کے بغیر کرنا ہوگا۔