تحریر: رضی طاہر
ایک وقت تھا جب علمائے کرام، مشائخ اور مبلغین کے اصول ہوا کرتے تھے، جب انہیں دعوت دی جاتی تھی تو وہ دیکھتے تھے کہ مدعی (دعوت دینے والا) کون ہے؟ ان کی نیت کیا ہوسکتی ہے؟ کیا دعوت دینے والے اس قابل بھی ہیں کہ ان کی دعوت قبول کی جائے؟
یہی امتیاز ہوتا تھا موسی کاظم جیسے امام زندان میں شہید ہو جاتے لیکن ظالم ہارون الرشید کی اطاعت ہرگز نہیں کرتے تھے، ابوحنیفہ جیسے فقہ کے امام، بادشاہ وقت کی دعوت ٹھکرا دیتے تھے۔ مجدد الف ثانی جیسے بزرگ اورنگزیب کی دعوت کو جوتی کی نوک پر رکھتے کیونکہ ان کے اصول حسینیت کے نقش قدم پر تھے۔ آج اصول نہ رہے، ظالم کی دعوت پر علماء سرنگوں ہیں، کیونکہ ان مبلغین کے اندر حسینیت کی جگہ امویت ان کے خون میں سرایت کر چکی ہے، امویت کے پاس انکار کی جسارت نہیں ہوتی، ظالم کو ظالم کہنے کی ہمت نہیں ہوتی، اموی مبلغین صرف قصیدہ خواں ہیں۔
تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ 18 ہزار علماء یزید کے محل سے منسلک تھے، وہ 18 ہزار علماء درحقیقت وظیفہ خور اور دین فروش تو ہوسکتے ہیں لیکن انبیاء کے وارث نہیں ہوسکتے۔ آج پاکستان میں ارد گرد نگاہ اٹھائیں تو کونسا عالم دین ہے جسے حکومت وقت بلائے اور وہ لپکا ہو نہ جائے گا، گو کہ اس کا ضمیر اسے ملامت کرے گا مگر وہ اموویت کا جبہ نشیں ظالم کے سامنے مسکراتا ہوا جائے گا اور حسب ضرورت قصیدہ خوانی بھی کرے گا۔