تحریر: رضی طاہر
غدار کہا، ملک دشمن کہا، طالبان خان کہا، اس کی ذات پر رقیق حملے کیے، زانی و شرابی کہا، کرپٹ کہا، ذہنی مریض کہا، اس پر قاتلانہ حملے ہوئے، اس کے گھر پر حملے، گھریلو خواتین پر حملے ہوئے، تیس سال قید سزائیں سنا دیں، عدت جیسے مسئلے پر رسواء کرنے کی کوششیں کی گئیں، لیکن پھر بھی دو سال میں وہ عوام کے دلوں سے نہ نکل سکا۔ اب بھی ہار نہیں مانی تو دہشتگرد و انتشاری کہہ دیا۔ کیا عوام مان لے گی کہ وہ انتشاری ہے؟ دہشتگرد ہے؟
کیا عوام کے مقبول ترین سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ایسے لہجے میں بات کرنے والے تاریخ سے کچھ نہ سیکھے، لیاقت علی خان، شیخ مجیب الرحمن، فاطمہ جناح، ذوالفقار بھٹو، ولی خان کو کیا دلوں سے نکال سکے ہو؟ کوئی ایک بھی ایسا سیاسی لیڈر، کوئی ایسی مثال جسے تم نے مائنس کرنا چاہا، کیا وہ مائنس ہوا؟
تاریخ کی گرد میں تو ایوب گم ہوگیا، یحیی بے مراد رہا، سیاہ ضیاء مٹ گیا، مشرف خاک ہوگیا، باجوہ منہ چھپاتا پھرتا ہے۔ مائنس تو وہ ہوگئے جو مائنس کرنے آئے تھے، باقی وہ رہے جنہیں مائنس کرنے کیلئے ریاستی سطح پر زور لگایا گیا۔ تاریخ یہ سکھاتی ہے کہ سارے حربے، تجربے، کارڈ، کیس، پریسرز ناکام ہوجائیں گی اور عمران خان امر ہو جائے گا۔ سوچنے سمجھنے کی ضرورت ہے