قاتل کے سوا شہر میں بے گناہ کون ہے؟

تحریر: عابدہ علی شیر، بہاولپور

یوں تو دو سال گزر گئے کبھی کوئی ایسا دن نہیں گزرا جب ارشد شریف شہید یاد نہ آیا ہو مگر اکتوبر جیسے ہی آتا ہے اور اپنے اختتام کی طرف بڑھتا ہے تکلیف دہ ہوتا جاتا ہے. کینیا میں ان کی شہادت کی خبر سننے سے وطن کی مٹی کے حوالے کرنے تک کے مناظر اور پھر انصاف کے راستے میں کھڑی کی گئی رکاوٹیں ایک مرتبہ پھر شدت سے اس ظلم کا احساس دلاتے ہیں۔


لیکن ہر گزرتے دن کے ساتھ اس بات کا اندازہ بھی ہوتا جاتا ہے کہ ریاست پاکستان کی ترجیحات کیا ہیں. پاکستان دو ریاستوں کا نام ہے .آپ حیران ہوں گے کہ یہ کیسے تو آئیے آپ کو بتاؤں.یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ ایک ریاست وہ ہے جو پاکستان کے براے نام آئین کے مطابق عوام ہیں.اور دوسری ریاست یہاں کے چند خاندان اور چند لوگ ہیں. پہلی “جمہوری ریاست”ہے جو غلامی کی عادی, جذباتی اور بے بس ہے اور دوسری” اصلی ریاست” ہے جس کے پاس طاقت ہے اور وہ اسلحے اور پیسے کے زور پر کچھ بھی کر سکنے کے زعم میں مبتلا ہے اور ابھی تک اس میں کامیاب ہے. یہ تقسیم صرف نام کی حد تک ہے اور اصل راج صرف ایک ہی ریاست یعنی اصلی ریاست کا ہی ہےلہذا لفظ ریاست کا مطلب وہی ہے جو ہم عوام کے ذہن میں بٹھایا گیا ہے یعنی بادشاہ اور اس کے حواری .پاکستان کے میڈیا میں خاص طور پر الیکٹرانک میڈیا میں ہلکی آنچ پر پکایا ہوا “ریاستی سچ ” ہمیشہ سے رائج رہا ہے اور کیسے نہ ہوتا جب پرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا کو اجازت ہی بادشاہ نے دی تھی۔


جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ جو بھی اس کے بیانیےسے اختلاف کرے گا, اس پر سوال اٹھاے گایا جمہوری ریاست کی بات کرے گا وہ ریاست مخالف ٹھہرے گا.سو انہی “ریاست مخالفوں ” کی فہرست میں شہید ارشد شریف بھی شامل ہو گئے.لیکن اصلی ریاست انہیں صرف مخالف سمجھتی تو دکھ کس بات کا تھا؟ ریاست کو جمہور کی بات کرتے ارشد شریف شہید اس قدر ناگوار گزرے کہ انہوں نے پاکستانی پرچم کو ہمیشہ سینے سے لگا کررکھنے والے دو خاندانوں کے اکلوتے کفیل کو باغی اور غدار قرار دے دیا.پرچم تو دونوں ریاستوں کا سانجھا تھا, اس کی محبت کی ہی لاج رکھ لی ہوتی۔


بات یہاں تک شاید رک جاتی مگر اصل مسلہ اس وقت ہوا جب ریاست کا باغی جمہور کے مقدمے پر ڈٹا رہا اور قوم کو بتایا کہ


“اگر پاکستان کی خود مختاری کےلیے جنگ لڑنا بغاوت ہے تو مجھے فخر ہے کہ میں باغی ہوں”


لہذا اس پر پہلے پاکستان کی زمین تنگ کی گئ اور پھر کینیا کےایک صحرا میں اس کی آواز کو خاموش کرنے کی ناکام کوشش کی گئ. اوریہیں اس نے ریاست کے چہرے سے 75 سالہ نقاب نوچ لیا. اس رات ارشد شریف نہیں مرا بلکہ ریاست کا بھرم اور رعب اس صحرا میں دفن ہو گیا. 75 سالہ بیانیہ دفن ہو گیا. آج کچھ لوگ ریاست کے چہرے سے نقاب اتارنے کا کریڈٹ لیتے ہیں تو مجھے ان سے اختلاف ہے.یہ کام سب سے پہلے ارشد شریف شہید نے کیا :
ع_وہ جس نے شہر کی دیواروں پر پہلا نعرہ لکھا تھا


بے نقاب صرف ریاست نہیں ہوئی بلکہ اس کا سب سے بڑا حواری نظام انصاف بھی ہوا جس نے ریاست کو بھر پور وقت دیا تا کہ وہ ثبوت مٹا لیں اور اس کے بعد ایکشن لیااور پھر کئ ماہ تک عوام کا مقدمہ لڑنے والے ارشد شریف کی ماں کو ایک وکیل تک نہ ملا.کیس چند دفعہ عدالت میں لگا اور اس کے بعد منصف اعلی قاضی فائز عیسی کا دور آتے ہی فائلوں میں دب گیا.ایک دفعہ ” غلطی ” سے لگا تو سہی مگر سنا نہیں گیا اور حالیہ “آئینی ترمیم” کے بعد تو مستقبل قریب میں کوئی امید نظر نہیں آتی۔


تیسرا نقاب میڈیا کے اپنے چہرے سے اترا.ویسے تو یہ کئ بار ہو چکا ہے مگر اس دفعہ میڈیا نے بھی کھل کر ریاستی وفاداری ثابت کی. سارا میڈیا جہاں قتل کو حادثہ بتاتا رہا وہیں ارشد شریف شہید کے جنازے سے زیادہ اہمیت پریس کانفرسز کو دی گئ. کولیگز کچھ دن بولے اور اس کے بعد ایسی چپ سادھی گویا منہ میں زبان ہی نہ ہو. چھ سال تک اس کے نام سے ریٹنگز لینے والا چینل اس کی پہلی برسی پر اک خبر تک نہ چلا سکا.

جھولنا دار پر اس عہد میں آساں ہے مگر
مرحلہ سخت بہت جرأت اظہار کا ہے

ارشد شریف شہید ریاست کا پہلا باغی نہیں تھا بلکہ ہر اختلاف رکھنے والا صحافی ریاست کا باغی ہی رہا. اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں سب سے زیادہ جس کمیونٹی کے قتل کے کیسسز حل نہیں ہوے وہ صحافی ہیں. میری نظر سے تو شاید ہی کوئ ایسا کیس گزرا ہو جس میں کسی صحافی کے اصل قاتل انجام تک پہنچے ہوں. پچھلی دھائ کے ہائ پروفائل کیسسز میں سلیم شہزاد اور ولی خان بابرکے قتل کو ہی دیکھ لیں .ولی خان بابر کے قاتل پکڑے گئے جن میں سے شاید اب صرف ایک قید میں ہے .اور سلیم شہزاد جس کے بارےمیں امریکہ تک نے کہا کہ آئ ایس آئ اس قتل کے پیچھے ہے وہ بھی ہمارےسامنےہے.صحافیوں نے ان کے لیے تھوڑا بہت احتجاج کیا لیکن سب کے لئے آواز اٹھانے اور آذادی اظہار رائے کے لئے لڑنے والے ارشد شریف شہید کےلیے سارا میڈیا احتجاج تک نہ کر سکا. اس وقت بڑے بڑے دعوے کرنے والے بھی اب منظر سے مکمل طور پر غائب ہیں.

شاید میرا خلوص بھی اک جرم تھا عدم
کن حیلہ سازیوں سے بھلایا گیا ہوں میں

ایک بات جو توجہ طلب ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں قتل ہونے والے زیادہ تر صحافیوں میں وہ شامل ہیں جو کسی نہ کسی طرح دہشتگردی اور غیر قانونی اسلحہ پر بات کرتے ہیں یا ایسے علاقوں سے رپورٹنگ کرتے ہیں. اگر ارشد شریف شہید کے آخری دنوں کے ویلاگز کو بغور سنا جاے تو معلوم ہو گا کہ ریاست کے ساتھ ان کی لڑائ بھی دہشتگردوں کی واپسی پر ہی تھی. سیاسی لڑائ کوئ نہیں تھی. لہذا ریاست اسے منظر سے ہٹاتے ہٹاتے خود کو دہشتگرد کہلوا بیٹھی!
بہر حال عوام, جس کو سازشوں کے پس منظر سے آگاہ کرنے والا ارشد شریف ان کے لیے شہید ہو گیا, اسے ہمیشہ ایک ہیرو کے طور پر یاد رکھے گی. وہ ایک نظریے کےلیے شہید ہوا اور نہ تو شہید مردہ ہوتا ہے نہ نظریہ مرتا ہے. طاقت کے زعم میں بیٹھی ریاست نے 23 اکتوبر کی اس رات خود ہی وہ نظریہ نئ نسل کے دلوں میں ہمیشہ کےلیے امر کر دیا. اس کے خون نے سچ اور جھوٹ کے درمیان کی لکیر کو اور واضح کیا ہے اور ہم ان شآء اللہ اس لکیر کو مٹنے نہیں دیں گے. اس نظریے سے محبت اور ظالم سےنفرت اب ہمارے وجود کا حصہ بن چکی ہے۔ ہمیں بھی اس سبز ہلالی پرچم کی قسم ہے جو اس کی اپنی مٹی سے محبت کی علامت ہے کہ ہم اس کی قربانی کا مقصد کبھی نہیں بھولیں گے۔ ان شأء اللہ!

فنا کے ہانپتے جھونکے ہوا سے پوچھتے ہیں
جبینِ وقت پہ نقشِ دوام کس کا ہے؟
تمہاری بات تو حرفِ غلط تھی مِٹ بھی گئی
اُتر گیا جو دلوں میں کلام کس کا ہے؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں