دیوالی، چار مذاہب کا مشترکہ تہوار

آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ دیوالی صرف ہندوؤں کا نہیں بلکہ دنیا کے چار مختلف مذاہب کا مشترکہ تہوار ہے، جسے نہ صرف ہندو مت بلکہ سکھ مذہب کے ماننے والوں کے ساتھ ساتھ جین مت اور بدھ مت کے بھی ماننے والے مانتے ہیں لیکن ہر مذہب کے ماننے والوں کے پاس دیوالی منانے کی وجوہات جدا ہیں۔

اس سے پہلے کہ ہم مختلف مزاہب میں دیوالی کی اہمیت کا خلاصہ کریں آپ کو بتاتے چلیں کہ دیوالی کو روشنی کا تہوار کہا جاتا ہے۔

دیوالی کے تہوار کی تیاریاں 9 دن پہلے سے شروع ہو جاتی ہیں اور دیگر رسومات مزید 5 دن تک جاری رہتی ہیں، اصل تہوار اماوس کی رات یا نئے چاند کی رات کو منایا جاتا ہے۔

دیوالی کے 5 دنوں کا آغاز ’دھن تیرس‘ سے ہوتا ہے، اس دن لوگ سونا چاندی یا کسی بھی دھات کی خریداری کو نیک شگون مانتے ہیں، اس دن لوگ کوئی نہ کوئی نئی چیز ضرور خریدتے ہیں۔

دوسرا دن ’نرک چتور داس‘ ہوتا ہے، اس دن کی اہم رسومات میں سے ایک غسل کرنا، آرام کرنا اور سبزیوں کے تیل سے جسم کی مالش کرنا ہے۔

تیسرا دن ’دیوالی‘ کا ہوتا ہے جو سب سے اہم اور مرکزی دن ہوتا ہے، اس دن چاند مکمل طور پر غروب ہوتا ہے اور ماحول معمول سے زیادہ تاریک ہو جاتا ہے، اسی لیے بہت سے دیے جلائے جاتے ہیں اور چراغاں کیا جاتا ہے۔

دیوالی کے چوتھے دن کے بارے میں بہت سی کہانیاں ہیں، کچھ لوگ اسے میاں بیوی کے دن کے نام سے جانتے ہیں اور وہ اکثر ایک دوسرے کے لیے تحائف تیار کرتے ہیں۔ دوسرے لوگ اس دن بارش کے دیوتا اندر پر کرشن کی فتح کو یاد کرتے ہیں اور اسے مناتے ہیں۔

دیوالی کا پانچواں یا آخری دن بہنوں اور بھائیوں کے جشن کا دن ہے۔ اسے بھیا دوج کے نام سے جانا جاتا ہے۔ بہنیں اپنے بھائیوں اور سرپرستوں کے لیے خصوصی دعا کرتی ہیں۔

اب آتے ہیں مختلف مزاہب میں دیوالی کی تشریح کی جانب

سکھ مذہب کی بات کریں تو اس کے پیروکار 1619 میں گرو ہرگوبند کی جیل سے رہائی کی سالگرہ کے موقع پر دیوالیاباب آتے ہیں مختلف مزاہب میں دیوالی کی تشریح کی جانب آتے ہیں مختلف مزاہب میں دیوالی کی تشریح کی جانب مناتے ہیں۔ گرو گوبند جی کی رہائی کے پیچھے ایک مکمل کہانی ہے جس کا ذکر نہ کیا جائے تو پس منظر جانے بغیر یہ تحریر نامکمل ہوگی۔

سکھ دھرم کے چھٹے گورو گورو ہرگوبند جی جو سکھ دھرم کے پہلے گورو تھے۔ انہوں نے ظلم کے خلاف تلوار اٹھائی۔ مغل بادشاہوں کے ظلم کے خلاف چار جنگیں لڑیں، جب انکے پیروکاروں میں اضافہ ہونے لگا تو دہلی کے تخت پر بیٹھے جہانگیر کے وزیروں کے ذریعے یہ بات پہنچائی گئی کہ ہر گوبند جی انکے خلاف بغاوت کرکے دہلی پر حملہ آور ہونے والے ہیں۔ جہانگیر نے وقت کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے گورو ہر گوبند جی کو دہلی آنے کا دعوت نامہ بھیجا۔ گورو جی نے یہ دعوت قبول کی، جب دہلی پہنچے جہانگیر نے انکا استقبال کیا بڑی شان کیساتھ، مگر ایک اور سازش کرکے انکو دہلی سے گوالیار کے قلعے بھیج دیا گیا اور انکو قیدی بنا لیا گیا۔ جہاں پر پہلے سے موجود 52 پہاڑی راجے قید میں تھے، تاریخ دان لکھتے ہیں کہ جب جہانگیر بادشاہ زیادہ بیمار ہوئے اور تمام حکیموں کی نسخے بے اثر ثابت ہوئے تو جہانگیر نے اپنے مرشد میاں سائیں میر جی کو دعوت دی۔ جہانگیر میاں میر جی سے اپنی صحت کے بارے میں بتایا تو میاں میر جی نے کہا کہ آپ ٹھیک ہوسکتے ہیں اگر آپ رب برگزیدہ ہستی گورو ہر گوبند، جسکو آپ نے قید میں ڈالا اسکو رہا کردیں، جہانگیر نے بغیر دیر کیے انکے حکم کی تعمیل کی، جب یہ پیغام گوالیار قلعے میں گورو ہر گوبند جی کے پاس پہنچتا ہے تو وہ انکار کردیتے ہیں اور یہ شرط لگا دیتے ہیں کہ میرے ساتھ باقی اسیران کو رہائی ملنی چاہیے۔ جس کے بعد جہانگیر ایک شرط پر اجازت دے دیتا ہے کہ گورو ہر گوبند کے چولہ صاحب کے جتنے بھی لڑ جتنے راجے پکڑ لیتے ہیں انکو ہی رہائی ملے گی۔ گورو ہر گوبند جی کیلئے راتوں رات ایک ایسا چولہ صاحب تیار کیا جاتا ہے کہ جس کے 52 لڑ تھے انکو پکڑ کر 52 کے 52 پہاڑی راجے بھی اس قید سے آزاد ہوئے۔ اس خوشی میں سکھوں نے اپنے گھروں اور امرت سر میں ہر مندر صاحب جنہیں گولڈن ٹیمپل بھی کہا جاتا کو بھی سجایا۔ جس دن گورو ہر گوبند جی کی رہائی ہوتی وہ دیوالی کا دن ہوتا ہے اسلیئے سکھ اسی دن کو بندی چھوڑ دیوس کہتے ہیں یعنی قید سے رہائی کا دن۔ جس قلعے میں گورو ہر گوبند جی نے قید کاٹی وہاں اج گوردوارہ بندی چھوڑ کے نام سے بنایا گیا۔

جین مت کے پیروکار مہاویر کی یاد مناتے ہیں۔ ایک قابل احترام سنیاسی جس نے بنیادی طور پر عقیدے کی اصلاح کی، اپنی موت کے بعد نروان کی حالت میں پہنچ گئے۔

بدھ مت کے ماننے والوں کے لیے یہ دن اس وقت کی نمائندگی کرتا ہے جب شہنشاہ اشوک نے خونریزی سے گزرنے کے بعد سب کچھ چھوڑ دیا اور امن کا راستہ اختیار کیا۔

ہندوستان میں بہت سے لوگوں کے لیے یہ فصل کی کٹائی کے موسم کے اختتام کی بھی علامت بھی ہے۔

دیوالی کا سب سے بڑھ کر اہتمام ہندو مذہب کے ماننے والے کرتے ہیں۔۔ ان کے مطابق یہ جشن اور چراغاں اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس دن ان کے بھگوان رام، ان کی اہلیہ سیتا اور ان کے بھائی لکشمن 14 سال کے بنواس یعنی جنگل میں جلاوطنی اور لنکا کے بادشاہ ’راون‘ کو شکست دینے کے بعد اپنے گھر، اپنے شہر ایودھیا واپس لوٹے تھے۔

اس موقع سارا شہر ان کے استقبال کے لیے اُمڈ آیا تھا اور ایودھیا کے چپے چپے سے روشنی کی کرنیں پھوٹ رہی تھیں، آج بھی لوگ رام کی اِس واپسی کا جشن دیوالی کی صورت میں مناتے ہیں۔

دیوالی سے جڑی اور بھی کہانیاں ہیں، مثلاً کہا جاتا ہے کہ کسور نامی ایک راجہ تھا، جو بڑا ظالم اور ہوس پرست تھا، حسین نوجوان دوشیزاؤں کو اغواء کر کے اپنی ہوس کا نشانہ بنانا پھر انہیں جیل کی آہنی سلاخوں کے پیچھے قید کر دینا اس کا محبوب مشغلہ تھا، ہندو مذہب کے ایک دیوتا وشنو نے بھگوان کرشن کا روپ دھار کر دیوالی کے دن دنیا کو اس ظالم راجہ سے نجات دلائی تھی۔

دیوالی کی بات کریں تو بھارت میں دیوالی کے ایام میں سرکاری تعطیل ہوتی ہے۔

نیپال، ماریشس، سری لنکا، میانمار، گیانا، ٹرینیڈاڈ و ٹوباگو، سرینام، ملائیشیا، سنگا پور اور فجی میں بھی دیوالی کا تہوار سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔

دیوالی کا تہوار عموماً خزاں کے موسم میں اکتوبر اور نومبر میں منایا جاتا ہے اور یہ ہندو کیلنڈر پر منبی ہے جو کہ چاند پر مبنی ہے لیکن شمسی کیلنڈر سے بھی ہم آہنگ کرنے کے لیے ہر تین سال میں دو ماہ کو ایک ماہ کے طور پر گنا جاتا ہے۔ اس جشن کی تاریخ ہر سال مختلف ہوتی ہے۔


یہ جشن اب زیادہ تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے اور تقریباً پانچ دنوں تک جاری رہتا ہے جس میں ہر روز ایک خاص تقریب ہوتی ہے۔ شہروں میں اس کا خاصا زور ہوتا ہے کیونکہ وہاں مال و زر کی طاقت بھی ہوتی ہے۔

مسلم سلاطین نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ہے۔ سب سے پہلے دہلی سلطنت کے حکمراں محمد بن تغلق نے اسے منایا اور پھر بعد میں مغل بادشاہ جلال الدین محمد اکبر نے ہندو مسلم دوستی کی خاطر اسے شاہی تقریب قرار دیا۔ ان کے بیٹے اور پوتے جہاںگیر اور شاہ جہاں نے بھی اس روایت کو قائم رکھا اور آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر تک یہ جشن دہلی کے لال قلعے میں بدستور جاری رہا۔


مغل سلاطین کے بعد اودھ کے نواب نے اسے چار چاند لگائے۔ اردو کے معروف شاعر میر تقی میر نے آصف الدولہ کی دیوالی پر ایک مثنوی لکھی ہے جبکہ نواب واجد علی شاہ نے اس میں اپنے فن کو پیش کرنے کا موقعہ تلاش کیا اور ٹھمری اور رادھا کرشن کے رقص کو شامل کیا۔

اردو شاعری میں دیوالی پر بہت ساری نظمیں اور اشعار نظر آتے ہیں ایک شعر جو ہر جگہ نقل کیا جاتا ہے آپ بھی سنتے چلیے

آج کی رات دیوالی ہے دیے روشن ہیں


آج کی رات یہ لگتا ہے پری آئے گی

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں